>

ہم دنیا کے بہترین مسلمان ہیں۔ جاوید چوہدری




محمد ربیع شحاتہ یوسف مصر کے معروف مزہبی رہنما ہیں، یہ جمعہ کی نماز کی امامت بھی کراتے ہیں۔ مصر میں امام حضرات حکومت کے ملازم ہوتے ہیں، یہ اپنی مرضی سے سے نماز پڑھا سکتے ہیں اور نہ خطبہ دے سکتے ہیں۔ تبلیغ کی اجازت بھی ریاست دیتی ہے۔ پاکستان کی طرح کوئی بھی تنظیم تبلیغ نہیں کر سکتی، یا کوئی بھی کچا پکا عالم لاؤڈ اسپیکر آن کر کے خطاب نہیں فرمانے لگتا۔ میں آج کل ایک کراچی کے ایک ذاکر کے ایمان افروز خطبات سن رہا ہوں۔ یہ کبھی برما کے جنگلوں میں لوگوں کو مار کر پھر زندہ فرما دیتے ہیں ،اور کبھی چین کے سمندروں میں پانی پر گھوڑوں کو دوڑا دیتے ہیں اور کبھی ڈوبے ہوئے شہزادے کو ایک ہاتھ سے زندہ باہر نکال لیتے ہیں۔ یہ اپنے زائرین اور حاضرین سے کلپ بنواتے ہیں، سوشل میڈیا پر لگواتے ہیں ،کلپس وائرل ہوتے ہیں اور ریاست میں اتنی بھی جان نہیں کہ ان سے درخواست ہی کر لے کہ "جناب ہاتھ کو ہلکا کر لیں" پوری دنیا ہم پر ہنس رہی ہے۔ لیکن مصر میں ایسا نہیں ہوتا ، حضرت امام شافعی کے ملک میں تمام علماء کرام مساجد اور مدارس ریاست کی نگرانی میں کام کرتے ہیں اور مصر میں وہ ملک ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ قرآن مجید اترا حجاز میں تھا لیکن اسے پڑھا مصریوں نے ہے۔ مصری قاری آج بھی دنیا بھر میں نمبر ون ہیں۔ ہم محمد ربیع شحاتہ کی طرف آتے ہیں، مصری حکومت نے کرونا کے بعد 21 مارچ کو ملک کی تمام مساجد اور چرچز بند کر دئیے ،نماز جمعہ پر پابندی لگا دی گئی، لیکن امام مسجد محمد ربیع شحاتہ نے چھپ کر اپنے گھر میں جمعہ نماز پڑھانا شروع کر دیا، 17 اپریل کو مخبری ہو گئی، امام صاحب کے گھر پر چھاپہ پڑا اور مقتدیوں سمیت رنگے ہاتھوں پکڑے گئے، حکومت نے انہیں حراست میں لے لیا اور امامت سے برطرف کر دیا ،انکا خطابت کا لائسنس بھی منسوخ کر دیا۔
لہذا اب امام صاحب ملک کے کسی بھی حصے میں بھی خطاب اور امامت نہیں کر سکیں گے۔ کیونکہ مصر میں حکومت خطاب،امامت اور قرات کے لئے لائسنس جاری کرتی ہےاور اس لائسنس کے لیے باقاعدہ ٹیسٹ ہوتا ہے۔ وہاں کوئی شخص محض داڈھی رکھ کر صوفی ،امام ،خطیب ،مولانا یا علامہ نہیں بن سکتا۔ وہاں مزہب انجنئیرنگ اور ڈاکٹری سے زیادہ اہم شعبہ سمجھا جاتا ہے، ہر کوئی عالم نہیں کہلا سکتا۔

یہ مصر کی صورتحال تھی، آپ باقی اسلامی ممالک کی کی صورتحال دیکھ لیجیے، سعودی عرب مسلمانوں کی مقدس ترین سر زمین ہے، اسلام مکہ اور مدینہ سے نکلا اور ہم ان دونوں شہروں کی خاک کو سرمہ سمجھ کر آنکھوں میں لگاتے ہیں ،سعودی عرب کی حکومت نے 20 مارچ کو خانہ کعبہ اور مسجد نبوی بند کر دی، یہ دونوں اس وقت بھی بند ہیں ،دونوں شہروں میں کرفیو ہے ،ملک بھر میں مساجد بھی بند ہیں ،
 ایران دوسرا بڑا اسلامی ملک ہے، ایرانی مساجد بھی مارچ کے پہلے ہفتے سے بند ہیں ،امام علی اور حضرت فاطمتہ الزہرا کے روزے مبارک تک بند کر دئیے گئے ہیں، عراق میں بھی مارچ سے مساجد ،مزارات اور روضے بند ہیں ، کربلا اور نجف اشرف کی زیارت بھی مقفل ہیں ،راستے تک بند کر دئیے گئے ہیں، متحدہ عرب امارات، مراکو ،کویت ، لیبیا، قطر ، اردن ،تیونس ،ترکی ،تاجکستان سمیت تمام اسلامی ممالک میں مساجد بند اور لوگ گھروں میں نماز ادا کر رہے ہیں۔

آپ ذرا غور کریں بیت المقدس بھی بند ہے اور اسرائیل میں عیسائیوں اور یہودیوں کی مذہبی مقامات اور عبادت گاہیں بھی مقفل ہیں ، فلسطین میں 1500 سال بعد ایسٹر کی تقریب نہیں ہوئی ،ویٹی کن سٹی میں بھی عبادات معطل ہو چکی ہیں۔ سعودی عرب شاید اس سال حج کے ویزے نہ کھولے ،ایران عراق اور شام بھی پابندیاں برقرار رکھیں، ہم یہ نہ کر سکے اور نہ کر سکیں گے، حکومت نے علماء سے مل کر 20 نقاطی ضابطہ اخلاق طے کیا ،جس پر نہ عمل ہوا اور نہ ہی عمل ہوگا، نہ ہی اس ضابطئہ اخلاق کی خلاف ورزی کرنے والے کو کوئی سزا دی جائے گی۔
یہاں جمعہ بھی ہوا اور تبلیغ کا کام بھی چلتا رہا، زائرین بھی ملک میں واپس آتے رہے ،اور ہم چین کے سمندر میں گھوڑے بھی دوڑاتے رہے۔

میں بہرحال اسے اسلام کی فتح اور پاکستانی قوم کی کامیابی سمجھتا ہوں، ہم اسلامی دنیا میں بلکہ پوری دنیا میں لیڈ کر رہے ہیں، ہم نے ثابت کیا کہ اگر ایمان پختہ ہو تو مرد مومن کرونا کے درمیان بھی باجماعت نماز ادا کرتا ہے، اور کرونا اسے چھونے کی جسارت بھی نہیں کرتا ، لیکن اتنی ایمان کی پختگی کے باوجود ہم دنیا کے 117 ممالک میں 79 نمبر پر آتے ہیں ، ہم ادویات اور خوراک میں ملاوٹ کرنے والی قوموں میں دس بدترین ممالک میں شامل ہیں ، فضائی آلودگی میں دوسرے نمبر پر ہیں، غربت ،جہالت اور بیماری میں بدترین ممالک میں شامل ہیں، صفائی ،تعلیم اور انصاف میں پست ترین درجے پر فائز ہیں۔
ہم آج مسجدوں میں بیٹھ کر یورپ اور امریکہ سے کرونا وائرس کی ویکسین کے طلوع ہونے کا انتظار کر رہے ہیں ، لیکن ہم بہترین مسلمان اور اسلام کے چمپئن ہی
ں
۔

Post a Comment

0 Comments