>

آئی ایم ایف کس طرح چھوٹی قوموں کو قرض حاصل کرنے اور اپنے سیاسی آلہ کاروں کی حیثیت سے چلانے پر مجبور کرتا ہے

تحریر: عتیق الرحمن
کتاب: "اقتصادی غارت گری کرنے والے کا اعتراف جرم

Add caption
"

پچھلے دنوں مجھے ایک کتاب جس کا نام" اقتصادی غارت گری کرنے والے کا اعتراف جرم"( The confessions of an economic hitman(" ہے پڑھنے کا اتفاق ہوا، یہ میرے اساتذہ اور سینئر دوستوں کی طرف سے بہت زیادہ تجویز کی گئی تھی، مجھے اس کتاب میں بیان شدہ مواد کی سنگینی کا اندازہ تھا لیکن اس کتاب کے حقائق اس قدر چونکا دینے والے ہونگے یہ اندازہ اس کے مطالعہ کے بعد ہوا، اس کتاب کے دو صفحات کا ترجمہ آپ کے لیے بھی پیش کرتا ہوں، ان صفحات کا سابقہ حوالہ یہ ہے کہ سی آئی اے میں نئے بھرتی ہونے والے ایک ماہر معاشیات کو سی آئی اے کی طرف سے بھرتی شدہ آئ ایم ایف کی ایک خاتون ماہر معاشیات جس کا نام "کلاڈین" ہے اس پروگرام کے بارے سمجھا رہی ہے، دو صفحات کا ترجمہ ملاحظہ فرمائیں:-

"کلاڈین نے مجھے بتایا کہ میرے کام کے دو ابتدائی مقاصد تھے۔پہلا،مجھے کسی ملک کے لیے بین الاقوامی کا جواز پیش کرنا ہوتا تھا جو کہ (قرض لی گئی رقم مین ایک امریکی کمپنی اور دوسری امریکی کمپنیوں کو بڑے تعمیراتی کاموں کی صورت میں واپس مل جائے گی۔ دوسرا، مجھے ان ممالک کو دیوالیہ کرنا ہوتا تھا جو قرض وصول کرتے تھے ،دیوالیہ کا مطلب قرض کی رقم امریکی کمپنیوں کی مدد سے واپس لے لی جائے گی تاکہ وہ ہمیشہ اپنے قرض دہندگان کے زیر اثر رہیں اور جب ہم ان سے مدد طلب کریں تو ہمارے آسان اہداف فوجی چوکیوں، یواین کے ووٹوں اور تیل و قدرتی وسائل تک رسائی کی صورت میں مکمل کریں۔
 کلاڈین نے مزید کہا، میرا کام کسی ملک میں اربوں ڈالر سرمایہ کاری کے نتائج کی پیشن گوئی کرنا ہوتا تھا۔ خاص طور پر،میں اس بات کی تحقیق کرتی تھی کہ مستقبل کے 20 سے 25 سال میں اقتصادی بڑھوتری کیا ہوگی اور اس سرمایہ کاری کے کیا نتائج برآمد ہوں گے۔ مثال کے طور پر اگر کسی ملک کو ایک ارب ڈالر دیا گیا ہے تو ہو سکتا ہے کہ اس کے حکمرانوں سے سوویت یونین سے روابط نہ بڑھانے کا کہہ دیا جائے۔ مزید میں اس رقم کی سرمایہ کاری پاور پلانٹس میں لگانے اور ریلوے لائن یا مواصلاتی نظام میں لگانے کا تقابلی جائزہ کرتی تھی۔ یہ مکمل طور پر میری صوابدید تھی کہ میں ان ممالک کو یہ وضاحت کروں کہ اس قرض سے کیسے انکی اقتصادی ترقی ہو سکتی ہے۔ بنیادی عمل ،ہر صورت میں، مجموعی قومی پیداوار، کا بڑھنا تھا۔ جس پروجیکٹ کی مجموعی قومی پیداوار سب سے زیادہ ہوگی ،وہ جیت گیا۔
ان سب پروجیکٹس کا چھپا ہوا پہلو یہ تھا کہ یہ پروجیکٹس ٹھیکیداروں یعنی امریکی کمپنیوں کو بڑا منافع دینے کے لیے لگائے جاتے تھے، اس سے قرض وصول کرنے والے ملک کے مٹھی بھر امراء اور بااثر لوگوں کو خوش کیا جاتا تھا، انہیں اس بات کا یقین دلاتے ہوئے کہ دور رس اقتصادی آزادی اس ملک کا مقدر بنے گی، ان سے سیاسی وفاداریاں پوری دنیا میں حاصل کی جاتی تھیں۔ جتنا بڑا قرض ،اتنا ہی فائدہ۔ حقیقت یہ ہے کہ قرض کا بوجھ اس ملک کے غریب طبقے کو صحت، تعلیم اور دوسری معاشرتی ضروریاتِ زندگی کو دہائیوں تک قریب نہیں آنے دیتا تھا۔
کلاڈین اور میں نے"قومی مجموعی پیداوار" والی بات پر کھل کر تبادلہ خیال کیا، اس نے مجھے بتایا کہ مجموعی قومی پیداوار تو تب بھی بڑھ ہی جائے گی جبکہ یہ صرف ایک ہی شخص کو فائدہ دے رہی ہو، جیسا کہ ایک کمپنی کا مالک فائدہ اٹھا رہا ہو اور باقی عوام قرض تلے دبے ہوئے ہوں، اس طرح امیر مزید امیر ہوتا جائے گا اور غریب مزید غریب لیکن صورت میں بھی شماریاتی حساب سے معاشی ترقی ریکارڈ ہو جائے گی۔
بہت سالوں سے میں یہ تبصرے سن رہی ہوں کہ امریکی لوگ کہتے ہیں" اگر وہ امریکہ کے جھنڈے جلا رہے ہیں اور سفارت خانے کے باہر مظاہرے کر رہے ہیں تو ہم ان کے لعنتی ممالک سے نکل کیوں نہیں جاتے اور ان کو انکی غربت کے ساتھ سڑنے کیوں نہیں دیتے؟ جو لوگ ایسا کہتے ہیں ان کے پاس کچھ ڈگریاں ہیں اور وہ اپنے آپ کو پڑھا لکھا ثابت کرنا چاہتے ہیں تاہم ان کو اس بات کی بھنک بھی نہیں کہ ہم نے دنیا میں سفارت خانے اپنے مفادات کے لیے بنائے ہیں جن سے امریکہ نے بیسویں صدی کے آخری پچاس سال میں پوری دنیا کو اپنی سلطنت بنا لیا ہے۔


Post a Comment

1 Comments