میری چشم تصور پیپلز پارٹی کے دور کا ایک ٹاک شو دیکھ رہی ہے جس میں جناب فواد چوہدری فرما رہے ہیں" دیکھیں مشرف دور ایک بد ترین آمریت کا دور ہے جس کی وجہ سے پاکستانی معیشت و تجارت کئ دہائیاں پیچھے چلی گئی ہے آج آصف علی زرداری ہی وہ واحد لیڈر ہیں جن میں اس بکھری قوم کو اکٹھا کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔ آصف علی زرداری کا ایک فوجی ڈکٹیٹر کو وردی اتارنے اور صدارت سے استعفیٰ دینے پر مجبور کرنا انکی بے پناہ قائدانہ صلاحیتوں کا منہ بولتا ثبوت ہے". ابھی میں اسی تصور میں تھا کہ میرے خیالوں میں ایک اور منظر گھومنے لگا، وہی پیپلز پارٹی کے فواد چوہدری کے پختہ نظریات اور اپنے لیڈر کیلئے اخلاص سے بھرپور جزبات اب یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب وہ جہلم کی جلسہ گاہ میں عمران خان کی موجودگی میں آصف علی زرداری کو پاکستان کا سب سے بڑا چور قرار دے رہے ہیں۔ انکی باتوں میں بے پناہ اعتماد اور منطق کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔وہ ہر عقلی دلیل سے آصف زرداری کو ایک کرپٹ لیڈر ثابت کر رہے ہیں۔ اب میں اس بات کو سمجھنے سے قاصر ہوں کہ کیا نظریات اور مفادات کا بھی کوئی گٹھ جوڑ ہے؟ کیا مفادات کیلئے نظریات اور عقلی دلائل کو عارضی طور پر موجود صورت حال کیلئے تبدیل کیا جا سکتا ہے؟
چلیں میں ایک اپنی مثال دیتا ہوں۔ مثالیں تو کئ موجود ہیں،سمجھانے کی خاطر ایک مثال لے رہا ہوں۔
میرے ایک جاننے والے صاحب تھے جو کہ ایک سماجی کارکن بھی تھے اور ایک تعلیمی ادارا بھی چلاتے تھے، اتنے شفیق انسان،اتنی عمدہ باتیں کہ دل خوش ہو جاتا تھا۔ انکی باتیں میں یوں سنا کرتا تھا جیسے ایک پی ٹی آئی کا کارکن عمران خان کی باتیں سنتا ہے اور سچ بھی سمجھتا ہے۔ وہ ہر موضوع پر بات کرتے تھے۔ہم دوستوں کو جب بھی موقع ملتا تھا ہم ان صاحب کی صحبت میں جا بیٹھتے تھے اور ایک علمی گفتگو سے محظوظ ہوتے تھے۔ ان کے غریب عوام سے متعلق بہت ہی عمدہ خیالات تھے، انکا خیال تھا کہ کسی بھی استحصالی حکومت، استحصالی ادارے یا استحصالی گروہ کا خاتمہ ہونا چاہیے۔ وہ غریب عوام کے لٹنے کے ہر طریقہ کار پر رہنمائی فرماتے۔ وہ پرائیویٹ کارپوریٹ سیکٹرز کی من مانیوں اور غریب عوام کو لوٹنے کی دہائیاں دیتے، غرض یہ کہ انکے نظریات سے متفق ہوتا تھا بالکل اسی طرح جس طرح پی ٹی آئی کا کارکن عمران خان کی 12 موسموں والی بات اور آئ ایم ایف سے قرض نہ لینے والی بات سے متفق ہوتا ہے۔
پھر ایک دفعہ مجھے یہ جاننے کا اتفاق ہوا کہ انکا ایک نجی کاروبار بھی ہے ، وہ اسے سکول کالج کا نام دیتے تھے جس میں دور حاضر کے مطابق ٹھیک ٹھاک فیس لی جاتی ہے۔ اب یوں ہوا کہ حکومت نے پرائیویٹ سکولز کی فیس کنٹرول سسٹم بنانے کی تجویز دی اور سونے پہ سہاگا یہ کہ ہائ کورٹ نے سکولز کو فیس نہ بڑھانے ،چھٹیوں کی فیس ایک ساتھ نہ لینے اور یونیفارم، بستہ ،کاپی وغیرہ سکول سے نہ لینے جیسے کچھ اہم فیصلے یکے بعد دیگرے کئے۔ مجھے وہ پوسٹیں تو یاد نہیں جو ان صاحب نے ایک سماجی رابطے کی ویب سائٹ پر لگائیں لیکن انکا لب لباب بالکل وہی تھا جو فواد چوہدری کے نظریات کی تبدیلی مشرف ،زرداری اور عمران کے حوالے سے ہوئ تھی۔ وہ شخص بڑھ چڑھ کر جوش و خروش سے علم کو بنا کسی رکاوٹ کے ہر خاص و عام کیلئے ضروری اور یکساں دینے پر زور دیتے تھے اب انکی نظر میں کارپوریٹ سیکٹرز مظلوم جبکہ عوام ظالم کی جگہ آن کھڑے تھے ، اب وہ ہر بات کا عقلی دلائل کے ساتھ دفاع کر رہے تھے ،اب بھی انکی باتوں میں وہی اعتماد تھا جو فواد چوہدری کا عمران خان کا دفاع کرتے وقت ہوتا ہے۔لیکن اب ٹیبل ٹرن ہو چکے تھے ، اب وہ عوام کو ظالم قرار دیتے ہوئے یہ دلیل دے رہے تھے کہ محض 3000 ماہانہ فیس میں وہ کتنا کمائیں، یہ وہی تھے جو کبھی مزدور کی 10000 ماہانہ آمدنی کو قلیل بتاتے ہوئے اس قدر افسردہ ہوتے تھے کہ گمان ہوتا تھا کہ ابھی رو دیں۔
حاصلِ گفتگو::
میں یہ نہیں کہتا کہ آپ کو کسی کی اچھی اور علمی باتوں پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیے۔ پی ٹی آئی کارکن کے پاس بھی کوئی اور چارہ نہیں تھا کہ وہ عمران خان پر اعتماد کرتے ،اس کے سوا کوئی اور طریقہ نہیں تھا کہ عمران خان کو اپنی کہی ہوئی باتوں کو درست ثابت کرنے کا ایک موقع دیا جاتا۔ لیکن میری صرف اتنی سی عرض ہے کہ کسی کو اپنا پیر و مرشد بنا کر سر پر نہ بٹھا لیں، جب بھی کسی کے قول و فعل میں تضاد دیکھیں تو کھل کر بولیں بلکہ موزوں لفظ یہ ہے کہ انہیں بے نقاب کریں ،خدارا کسی کے لیے استعمال مت ہوں
2 Comments
Great
ReplyDeleteHi 😊😊 this is really a fruitful topic ☺☺ but I have a question that it can be generalized for all or not?
ReplyDelete